وقار اعظم ……وقار عظیم


نیٹ پر کچھ ماہ قبل وقار اعظم سے ملاقات ہوئی . وقار اعظم ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں دوست بنانے کے لئے کسی محنت کی ضرورت نہیں ہوتی انکا خلوص لوگوں کو خود بخود وقار کی طرف کھینچتا ہے. تحریک اسلامی سے انکا تعلق مجھے بھی انکے قریب لے گیا اور میں نے ان میں قابل قدر خوبیاں دیکھیں. آجکل سوفٹ وئیر انجینیرنگ میں ماسٹرز کر رہے ہیں. ساتھ ہی ساتھ جاب بھی چل رہی ہے. معاشرے میں اور خاص طور پر اردو بلاگننگ ورلڈ پر لبرلزم ، آزاد خیالی ، روشن خیالی اور بارہ سنگھا مافیا کے خلاف انکی کوششیں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں .انکی وجہ شہرت ساتھی بلاگرز کے بلاگز کو انکے بلاگ کا اپنا ڈومین نیم دلوانا اور بلاگز کو ایک بہتر شکل دینا ہے جس سے بہت سارے بلاگرز نے فائدہ اٹھایا. میرے ساتھہ بھی انہوں نے یہی کیا. اور مجھے ” مجبور” کیا کہ میں اپنی بلاگنگ کا حلیہ درست کرلوں. سو انکے مشوروں کے مطابق اپنا ایک ڈومین نیم حاصل کیا اور باقی کام وقار بھی نے خود کر دیا. اس ڈومین نیم پر ایک ورڈ پریس کا بلاگ حاصل کیا اور میری پسند کی تھیم اپ لوڈ کردی . نہ صرف تھیم اپ لوڈ کی بلکہ اسکا اردو میں ترجمہ بھی کر دیا. ساتھہ ہی ساتھہ اسے اردو سیارہ پر رجسٹر کرنے کا حکم بھی دیا . تو جناب ہم حاضر ہیں اردو بلاگنگ کی دنیا میں با قاعدہ بلکہ “القاعدہ ” طور پر. اپنے نسبتاً پرانے بلاگ یعنی https://funadamentalist.wordpress.com/ سے اردو کا سارا مواد اپنے نئے بلاگ http://jawwad-khan.co.cc/ پر لے آیا ہوں اور آئندہ اردو بلاگنگ دنیا میں اسی بلاگ کے ساتھ حاضر ہونگا . ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ وقار اعظم آپ ایک عظیم آدمی ہیں.

اف ! یہ بارہ سنگھا


بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ کیا لکھوں کہ آخر کار ایک معزز خاتون بلاگر کی وجہ سے ایک بہت اچھا موضوع مل گیا اور اس پر میں نے لکھنے شروع کر دیا . کام کافی محنت طلب تھا. بہت ساری چیزوں کو ایک جگه جمع کرنا اور ترتیب دینا پھر انکے حق میں یا خلاف دلائل پر سوچنا اور ڈھونڈھنا، مجھہ جیسے ایک عام آدمی کے لئے بہت مشکل کام ہے لیکن کسی طور میں دو ہفتے کی محنت شاقہ کے بعد اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور مضمون تیار کر کے کمپیوٹر کے ڈیسک ٹاپ پر ہی محفوظ کر لیا اور خوش و خرم گھر روانہ ہوا .مگر یہ خوشی زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوئی . دوسرے دن جب میں نے آکر ڈیسک ٹاپ پر اپنا مضمون شایع کرنے کی نیت سے ڈھونڈا تو انکشاف ہوا کہ میل نرس نے اپنے تئیں صفائی کی اور “غیر ضروری” فائلز پر ہاتھہ صاف کیا جسکی زد میں میرا مضمون بھی آگیا ستم مزید اس پر یہ کیا کہ ری سائکل بن کو بھی صاف کر دیا . تب مجھ پر انکشاف ہوا اپنے اسکول ٹیچر کے فیوریٹ  جملے کے پیچھے چھپی کیفیت کا  ( اگر آپ بار بار استعمال ہونے والے جملے کو فیوریٹ کی کیٹیگری میں لانا پسند کریں تو ) وہ اکثر پڑھاتے ھوۓ انتہائی بیچارگی کی حالت میں ہم میں سے کسی کو کہا کرتے تھے کہ ” ایک کدال لا …پہلے اسے اپنے سر پر مار اور پھر میرے سر پر “… ہماری کلاس میں ایک سے بڑھ کر ایک “فنکار” اور “نابغہ روزگار”  شخصیت ہوا کرتی تھی. ایک دن جب یہ جملہ دوہرایا گیا تو ایک “فنکار” چپ نا رہ سکا اور جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی بول پڑا. یعنی جب ہمارے استاد نے کدال لانے کا مشورہ دیا تو ہمارے فنکار نے اسکے استعمال کے حوالے سے ترتیب میں تبدیلی کا مشورہ دیا اور کہ اٹھا کہ “سر پہلے آپ “. اس شوخی کی اس غریب فنکار کیا قیمت ادا کرنی پڑی وہ ایک الگ داستان ہے. تذکرہ میرے مضمون کے ضایع ہونے کا  ہو رہا تھا اور میں کہیں اور چلا گیا. بلاگنگ کا اک نقصان یہ بھی ہے کہ آپکو اپنے بلاگ کا پیٹ بھرنا پڑتا ہے . اس دنیا میں روزانہ لکھنا بھی اچھا نہیں اور بہت کم لکھنا بھی ٹھیک نہیں . دونوں صورتوں میں گمان یہ کیا جاتا ہے کہ شاید آپکی اوپر کی منزل خالی ہے یا منزل اپنی جگه سے ہلی ہوئی ہیں. یہ الزام کوئی بھی اپنے سر لینا پسند نہیں کرتا . لہٰذا یہ پوسٹ حاضر خدمت ہے .
آج کا مضمون ذرا ہٹ کے ہے اور اسکا مقصد صرف اور صرف “ہٹانا” ہے اگرچہ مقصد عامیانہ سا ہے مگر فوائد بے حد و حساب ہیں . اسکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اس سے کچھ مظلوم اور زبانی طور پر مضروب لوگوں کی دل پشوری ہوجائے گی .زبانی طور پر مضروب ؟ چونک گئے نا …شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ نے کبھی اردو بلاگنگ ورلڈ کی سیر نہیں کی – بلاگستان میں ہر طرح کے لوگ ہیں ، مختلف زبانیں بولنے والے ، مختلف نظریات رکھنے والے.ان میں کچھ اسپیشل کردار ہیں لیکن ایک کریکٹر تو بہت ہی اسپیشل ہے. اردو بلاگرز سمجھ گئے ہونگے کہ میرا اشارہ بارہ سنگھا کی طرف ہے .بارہ سنگھا ؟؟؟ آپ سوچ رہے ہونگے کہ بارہ سنگھا اور بلاگنگ ؟؟؟ بات غیر شاعرانہ ہونے کے ساتھ بے تکی بھی ہے . مگر ٹھیریے !!! اس بات کو مضحکہ خیز قرار دینے سے پہلے اردو بلاگنگ دنیا کا ایک چکر لگا لیجئے آپکو بات خود بخود سمجھ میں آجائے گی .
فائنل ائیر ایم بی بی ایس میں ایک بار ہمارے پروفیسر نے ہمیں زبانی امتحان پر کچھ ٹپس دیتے ھوۓ کہا تھا کہ میڈیکل سائنس میں آپکو بات دلیل سے کرنی پڑتی ہے. گدھا اگر آپکے سامنے آجاتے تو بھی آپ یہ کہ کر نہیں بچ سکتے کہ یہ گدھا ہے بلکہ آپکو بتانا پڑتا ہے کہ یہ گدھا کیوں ہے گھوڑا کیوں نہیں …

اسی اصول کو سامنے رکھتے ھوۓ  ہم آج کے مضمون میں بارہ سنگھا کے بارے جاننے کی کوشش کریں گے . تحقیق اور تفتیش کی ابتدا میں مجھہ پر یہ انکشاف ہوا کہ بارہ سنگھا جنگلوں میں پایا جاتا ہے اور شکاریوں کا مرغوب جانور ہے. اس تکلیف دہ انکشاف نے کچھ سوالات کو بھی جنم دیا کہ اگر بارہ سنگھا جنگلی جانور ہے تو یہ شہر میں کیا کر رہا ہے ؟ کیوں کھلےعام پھررہا ہے ؟ یہ معمہ تا حال حل  طلب ہے.  بارہ سنگھا ہرن کی نسل سے تعلق رکھتا ہے.اس کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں اس حقیقت کی دریافت نے کچھ نئے سوالات کو جنم دیا کہ اگر اسکی چار ٹانگیں ہوتی ہیں اور کوئی ہاتھہ نہیں تو وہ کمپوٹرپر  کیسے کام کرتا ہے اور کی بورڈ کیسے استعمال کرتا ہے ؟ سب سے اہم سوال جس نے مجھے سب سے زیادہ پریشان کیا وہ یہ تھا کہ قصائی لوگ اسکی آگے کی دو ٹانگوں کو دستی کیوں کہتے ہیں ؟ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے جب ہم نے کراچی کے مشہور قصاب اجمل پہاڑی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ دستی کا ذائقہ رانوں سے مختلف ہوتا ہے لہٰذا قصاب کمیونٹی اس کو دستی کہتے ہیں اپنی سہولت  کے لئے.انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تمام جانوروں کے اعضاء میں سب سے مہنگی چیز بارہ سنگھا کا بھیجا ہے ایک ہزار سریوں کو توڑنے پرکسی ایک میں یہ بھیجا نکلتا ہے. علاوہ ازیں مجھے اس کے نام پر  بھی اعتراض ہوا کہ اسے بارہ سنگھا کیوں کہتے ہیں ؟ کیا کسی نے کبھی اس کے سینگ گننے کی کوشش کی ہے ؟ دس سینگھا یا سولہ سینگھا کیوں نہیں کہتے ؟ میں نے جب بھی اس کے سینگ گننے کی کوشش کی ہے تعداد مختلف آئ ہے. میں نے ایک سنیاسی باوا سے اس مشکل کا ذکر کیا تو وہ بولے ” بیٹا!!! تو دل کا اندھا ہے. دل کی آنکھ کھول کر دیکھ اس کے سینگ بارہ ہی ہیں ” میں نے لجاجت سے پوچھا ” بابا جی ! مجھے دل کی آنکھہ کھولنے کا طریقہ بتائے ” سنیاسی باوا کا یہ سنتے ہی پارا چڑھ گیا .چنگھاڑتی ہوئی آواز میں بولے ” مورکھہ! عمر بھر کی تپسیا ایسے ہی حاصل کرنا چاہتا ہے. جا جاکر مزار کے مسٹنڈے متولی سے ١٠٠ روپے کا پوا لے کر آ اور پھر دیکھہ دل کی آنکھ کیسے کھلتی ہے” میں دانت پیس کر دل ہی دل میں سنیاسی باوا کی ایسی کی تیسی کی  اور وہاں سے چلا آیا.
پھر مجھے ایک مضمون ملا جس کا عنوان تھا “یوریکا ! میں نے پا لیا ” میں اس مضمون سے بے حد متاثر ہوا کیونکہ اس میں وجدان حاصل کرنے کا نہایت سہل طریقہ بتایا گیا تھا . آپکو صرف ایک باتھہ ٹب    چاہیے جس میں بیٹھہ کر آپ نے غور و فکر کرنی ہے . اس میں خاص خیال یہ رکھنا ہوتا ہے کہ وجدان کہیں آپکو مکمل طور پر مغلوب نہ کر لے اور آپ ٹب سے اٹھہ کر کپڑے پہنے بغیر مارکیٹ پہنچ جائیں اور آپکی شیم شیم ہوجائے.وجدان سے مغلوبیت کا یہ اندازمجھے خاص طور پر پسند نہیں کیونکہ گزشتہ کچھ سالوں میں اپنی زبان کی وجہ سے کئی دشمن بنائے ہیں جو مجھہ پر کسی ایسے ہی وجدان کے غلبے کا انتظار کر رہے ہیں.تو جناب میں ٹب میں بیٹھہ گیا شام سے رات ہوگئی مگر کچھ بھی نہیں ہوا بیوی بچے رونے لگے اور باتھہ روم کا دروازہ  پیٹنا شروع کر دیا نا چار  ٹب سے باہر نکلنا پڑا. سمجھ میں یہ آیا کہ وجدان حاصل کرنے کا یہ طریقہ قدیم یونانی فلاسفرز کے لئے مخصوص ہے. میں نا تو یونانی ہوں اور نا ہی فلاسفر البتہ کچھ کچھ قدیم ہوتا چلا جا رہا ہوں لیکن مجرد اتنی قدامت کافی نہیں ہے .تب میں نے وجدان اور تیسری آنکھہ کو سنجیدگی سے گولی مارنے کا تہیہ کیا اور اردو بلاگنگ دنیا میں موجود سنسنی خیز معلومات سے استفادہ کرنے کا ارادہ کیا .
اردو بلاگ پر ڈھونڈا تو بارہ سنگھا پرکئی مضمون نظر سے گزرے .ان میں بچوں کے مشہور شاعر جناب  سلیم فاروقی صاحب کی نظم “بارہ سنگھا کی فریاد ” خاص طور پر  قابل ذکر ہے. جس میں بارہ سنگھا کو ایک نصیحت کی گئی تھی کہ اپنے سینگوں پر نا اترایا کر یہ تجھے کسی جھاڑی میں پھنسا سکتے ہیں.بارہ سنگھا نے چونکہ ہر جگہ سینگ پھنسائے ہیں. اس لئے خرم ابن شبیر کا بلاگ بھی متاثر ھوۓ بغیر نہیں رہ سکا اور وہ پوچھ بیٹھے ” آپ کون خواہ مخواہ “. حیران و پریشان کے جناب ضیاء الحسن خان صاحب بھی اسکے ستائے ھوۓ ہیں اپنے ایک نہایت عمدہ مضمون ” جہاں خطرہ محسوس کرتا ہے اپنا روپ اور نام تک بدل لیتا ہے ” میں انہوں نے اسکی چالاکی اور حاضر دماغی کا تذکرہ کیا ہے.
بارہ سنگھا پر تازہ تحقیق “تنگ نا کر اوے خانہ خرابہ”  اپنے خواہ مخواہ جاپانی صاحب کی ہے جنہوں نے بارہ سنگھا پر کافی وقت صرف کیا ہے. اپنی تحقیق میں جناب جاپانی صاحب نے بارہ سنگھا کی شخصیت کے ایک خاص پہلو کا بڑی خوبصورتی سے احاطہ کیا ہے اور بڑی مفید معلومات فراہم کی ہیں.    بارہ سنگھا پرعلامہ اقبال کا یہ مشہورشعر تو ضرور اپنے پڑھا ہوگا کہ :

اپنے سینگوں  پراب نا پچھتا  اے  بارہ  سنگھا
یہ تو ہیں ہی تجھےجھاڑی میں پھنسانے کے لئے

بلاگستان کے اس بارہ سنگھا کی شخصیت کا سب سے پریشان کن پہلو اسکا انتہائی جارحانہ رویہ ہے . بغیر کسی اشتعال انگیزی کے سینگ مارنا اس کی ایسی عادت ہے جس سے سارے اردو بلاگرز سوائے ٢-٣ بلاگرز کے سب پریشان ہیں. میں نے اس بارے میں مزید جاننے کے لئے ڈاکٹرعنیقہ ناز صاحبہ سے جو خیر سے “ادارہ تحفظ جنگلی حیاتیات ” کی ریجنل ڈاریکٹر بھی ہیں ،رابطہ کیا تو انہوں نے اس کا سبب حکیم الامت جناب الطاف حسین لندن والے کے دوا خانہ کی مشہور زمانہ قبض کشا  “نظریاتی ” کا ضرورت سے زیادہ استعمال بتایا ہے. انہوں نے خاص طور پر کچھ شرارتی بلاگرزجیسے وقار اعظم ، خواہ مخواہ جاپانی ، عمران اقبال اور خرّم ابن شبیر، جعفر اور ڈفر کے رویہ کی بھی شکایت کی کہ جن کی چھیڑ چھاڑ کے سبب بارہ سنگھا ہمہ وقت سینگ مارنے کے لئے تیار رہتا ہے.انکے خیال میں  معاشرے میں موجود تنگ نظری ، تاریک خیالی اور مردوں کی موجودگی بارہ سنگھوں کی افزائش کے لئے شدید خطرہ ہیں . انکا خیال تھا کہ اگر معاشرے کو صرف مردوں سے ہی پاک کر دیا جائے تو تاریک خیالی اور دقیانوسیت سمیت ہر قسم کے معاشرتی امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے . یہ بات کہتے ھوۓ انکی انگلیاں اس طرح بھینچ گئیں جس طرح کسی کا گلا گھونٹنے کے لئے بھینچی جاتی ہیں اور سینڈل کو ایڑی پر ایسے حرکت دی جیسے کاکروچ کو جوتے سے مسلنے کے لئے دی جاتی ہے. یہ منظر دیکھہ کر میں کانپ گیا اور کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلا.کیونکہ اپنے تمام تر بھدے پن اور بد صورتی کے باوجود مجھے مرد کی کیٹگری میں ہی شامل کیا جاتا ہے .اس ضمن میں جانوروں کی نفسیات کے ماہر قبلہ عثمان صاحب کینیڈا والے کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ بری صحبت اور ہڈ حرامی کا نتیجہ ہے.انہوں نے کمپوٹر اسکرین سے نظر ہٹائے بغیر گوروں کی مثال دیتے  ہوے فرمایا  کہ کس طرح چالاکی سے گوروں نے وہاں کے مقامی بارہ سنگھوں کو کام پر لگایا ہوا ہے. سارا دن برف پر وزن کے ساتھہ دوڑانے کی وجہ سے انکے بارہ سنگھوں میں سینگ مارنا تو دور کی بات چارے پر منہ مارنے کی بھی ہمت باقی نہیں رہتی .حتی کے کہانیوں تک میں بھی مقامی بارہ سنگھوں کو کام پر لگایا ہوا ہے . گفتگو کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ کسی خاتون بلاگر نے کوئی نئی پوسٹ شایع کی اور قبلہ  ہم سے معذرت طلب کے بغیر نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھہ تبصرہ لکھنے بیٹھہ گئے. جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ پریشان کیا وہ بارہ سنگھا کی سلامتی تھی. کراچی جیسے شہر میں جہاں چمڑی کے لئے چمڑیاں ادھیڑ دی جاتی ہیں بغیر حفاظت اور محافظوں کے کھلے عام پھرنا خاصا تشویشناک امر ہے. ہماری تشویش پر بھائی لوگ خوب ہنسے اور کہنے لگے کہ یہ بارہ سنگھا سعودی عرب سے آپریٹ کرتا ہے کراچی میں اسکی موجودگی مجازی ہے حقیقی نہیں اور حقیقی والوں سے اسے خاص طورپرلندن واسطے کا بیر ہے. حقیقی والوں کے خوف سے اس نے برطانوی حکّام سے سیاسی پناہ کی درخواست کی.  جسے سن کر وہ پہلے تو وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے مگر جب بارہ سنگھا نے اپنے سینگوں کی افادیت کا عملی مظاہرہ کیا تو وہ خود پناہ کی تلاش میں بھاگنے لگے.جب یہ بات سفارتی حلقوں میں مشہور ہوئی تو ترس کھا کر نامور عرب شیخ بکر ڈکر بخاخ اس شرط پر سعودیہ لے آئے کہ وہ سعودیہ میں کسی کو سینگ نہیں مارے گا اور بدلہ میں اسے قصابوں اور چھریوں سے ایک میل کی دوری پر رکھا جائے گا.
ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی طرح بارہ سنگھا کو سینگ مارنے سے روکا جائے اور جنگلی حیاتیات کو جنگل تک محدود کیا جائے . آگے الله مالک ہے یہاں نہیں تو آخرت میں مظلومین کو صبر کا پھل عمدہ اور بے حد لذیذ تکوں کی صورت میں ملے گا ..انشا الله

Sixer for peace or kick in the butt!


Today morning I experienced my toughest and hardest time as weekend begins on Saturday  in Saudi Arabia. After the semi final today was the first working day and in a MNC where Indians have a sizable presence ,it is really a pain. The ugly and triumphant smiles, arrogant gestures and mocking discussion over the defeat of Pakistan in the semi final is really a painful experience.
I also read a story on today’s daily Ummat, mentioning the obscene and disgusting mockery with the Pakistani cricketers by Indian social networking sites. The pain is ironic because in our side the whole event is promoted by Jang and Geo group as the only opportunity for peace. Jang group ran a relentless campaign for this cause. Like many I do not believe in the Geo’s crap of “Amn ki Aasha” . Whoever read the “Arthshaster” written by Kautilya aka  Chanakya and whoever knows the influence of this book over the mentality of Indians especially on Brahman ruling elite ,knows very well that peace could only be brought by gun point not through ridiculous slogans and disgusting bowing in front of Indians.

We sent the messages of love and peace and what we got in return? disgusting and offensive mockery with our players. I am sure that Geo and Jang group won’t mind that but as a Pakistani it hurts me.Personally I hate cricket more than I hate liberals and enlightened moderates of Pakistan. I believe that this game is no more a gentleman’s game. Pakistani cricket especially has been corrupted. Even though I don’t watch the cricket matches but every time I see my national pride on stakes by our fellow Pakistani representatives. What would be the worst damage to the national pride than these photographs , Photoshopped by Indian social networking sites. These images is a slap on the face of Pakistan and Geo and Jang group.

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Justice is served…..really?


Usually I avoid writing the issues related to the politics and state affairs because the wholesome involvement of highly disgusting and obnoxious people. To me its a complete wastage of time, energy and emotions. It also destroy my peace of mind and also cause the bizarre and painful vibration in my nerves but yesterday some thing tragic happened which made me to write about that. The pardoning and departure of Raymond Davis left an unspeakable sadness and emptiness inside my heart and soul.
In the world of change where we are watching the fall of dictators in the region, people ask why  why the revolution is to coming in Pakistan. For me there are  two big and obvious reasons:
1) Imposturous, snakish and diabolical ruling elite which is literally slave of its own vested interests and therefore slaves of their British and American masters.
2) Corruption of  common men.
Think of a room filled with people and nauseating stink and you see the people are comfortable and you wonder why people are not appalled with the stink. Why no body is opening the windows and door or using air freshener or going out of the room. It simply means that people in that particular room have been accustomed with that stink. The same is with the Pakistan, in spite of all of the misery and sufferings we only talk about change as it is a job of  some one else.

Now Raymond Davis has been gone we heard that the Nawaz shareef is out for heart problem, Shahbaz Shareef for pay his brother a visit and the presiding judge for unknown reasons. The ruling elite seems to be relived and everybody seems happy that the issue has been resolved, blood money has been paid and to the relatives of victims and every one saw the documented evidence of blood money. justice is “prevailed” and we are told about the good news of” happy ending” but the story is not finished there are some questions which need answers. Also there are some stories about misuse of “diyat law” and forcing the relatives and their lawyers, departure of Raymond Davis despite his name in ECL, secrecy and urgency in final settlement etc.

The news are coming about the protest from the relatives of Shumaila Kanwal (faheem’s widow). We saw their firm resolution about the justice and they showed no interest in blood money they claimed that they never wanted blood money. Question is who is right? According to Punjab’s information minister Rana Sanaullah, Raymond is pardoned  by bereaved families of Faizan and Faheem and documents were shown by media. While the bereaved family of Shumaila Kanwal threatened by collective suicide. Earlier their protest was put down by lathi charge  injuring many of the family members. The lawyer of bereaved family accused Punjab government and especially Rana Sanaullah of unfair play and forcing the family to sign the documents. These reports put a huge question marks on the whole  settlement and especially the fact that third victim Ibad ul Rehman was completely ignored. Also there is a huge question marks on sovereignty , integrity and independence of judiciary. The manner in which the whole issue was put an end shows every thing but justice and enforcing the notion that judiciary is nothing but a power hungry institution like Pakistan army. I personally became deeply disappointed by the behavior of the senior judge.

Now there are some serious questions which need answers.
1) The whole issue was dealt under Islamic law of “Qasas and Diyat” . Whether or not diyat is paid, the most important allegation has been sidelined. Raymond’s roll in anti state activity is easily forgotten. No body investigated his alleged  contacts  with extremists, the equipments of spying, the weapons and the fact that his apprehension paralyzed the drone attacks and surge the bombings. Rana Sanaullah while talking in ARY program “Off the record” gave a ridiculous explanation that  anti terrorist activity was not mentioned in FIR and therefore was not an allegation. Wasn’t a duty of government especially Punjab govt:  to investigate ?
2) What about Ibad ul Rehman? why his family is ignored? Isn’t our judiciary is responsible for injustice?
3) The roll of judiciary and especially the session judge yousuf  Ojla. Wasn’t his duty to at least play an active role confirming that all parties are being paid properly. What happened to the higher judiciary ? Don’t they have real job rather challenging the  appointments of  high level government officials.
4)  Media reports have almost convinced us that under the patriotic and professional leadership of general Ashfaque Pervez Kiyani the Pakistan army changed its roll from “bharay key Tattoo” to the guards of the nation. We heard the stories of rivalries between ISI and CIA over the issue of national security. What is the roll of Pakistan army in whole issue? why these hot shots didn’t show any concerns against not having proper investigations?
5) What are reasons behind secrecy and urgency in final stages of the verdict?
6) Where both of the bereaved  families are gone?

The questions are many but irony is that we all know the answer. For me the answer is two words “vested interests”. vested interests of not only ruling elite but every one. The disease is such a widespread that our whole body is showing no sign of life. I think we are too late for survival in this hostile world.

 

ہم جان گئے پہچان گئے کوئی راز نہیں کوئی بات نہیں
ہر   شاخ   پہ  الّو  بیٹھا  ہے  انجام گلستان  کیا  ہوگا

Are you a right brain addict?


I always amazed by the extraordinary and unbelievable power of convincing people showed by the media. In today’s world reality is made to be more stranger than the fiction. People easily believe on lies  while truth remains obscure and faintly perceptible. In today’s world day can be proved as night and night can be as day. What is needed is just few smart, good looking and eloquent personalities in the media repeating same lies in palatable way. The genuine reason for such a dajjali success  lies in a  fundamental flaw in human think process. The human being use right brain much more than left brain. The right brain is the part of intuitive, subjective and holistic thinking. In easy language it is the area where perceptions rule. while the left brain is the area of critical thinking by using analysis, objectivity and rationality  as tools. It is therefore said that 13% of human beings look deeper in the issues,make critical thinking and then form an opinion. While 87% believe in common public perceptions. This inherent weakness of great majority of human being makes them vulnerable for control. If sufficient resources and technical information is provided,you can make them live in prison without bars, a prison of mind.

What I found really interesting that TV is nothing but a tool of hypnotism. It activate the human right brain side and keeps left brain side dormant and inactive. Whoever saw the thriller, horror and mysterious Hollywood movies can understand very well. The time  when we watch the movie, we become so absorbed in the movie that our heart rhythms ,brain activity, breathing patterns and adrenaline levels change according to the scenes in the movie and we forget that we are watching a movie. In other words we are hypnotized for a particular time. The after and long term effects on human psyche is a much more detailed and complicated issue.

Ask some one about global warming, till few years back ,I myself believed that our style of living is killing our environment. I am sure most of us still believe on this lie. After watching the “Inconvenient Truth”  by ex vice president of USA Mr. Al Gore , I believe whoever watch the movie will certainly become convince that human beings are destroying our environment and we are responsible for global warming. In his documentary Mr.Al Gore demonstrated a powerful discourse and remarkable convincing powers.   Now It has become a popular and common public perception but in reality there are some serious questions and concerns raised by scientific community against  the manner in which issue of global warming is raised.
Watch this documentary and test your perception.

It is also interesting to watch the debate and opinion change after the debate, held in New York on March14, 2007 by Intelligence Squared US.

GLOBAL WARMING IS NOT A CRISIS from Intelligence Squared US on Vimeo.